تفسير ابن كثير



سورۃ البقرة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ[266]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں، اس کے لیے اس میں ہر قسم کے کچھ نہ کچھ پھل ہوں اور اسے بڑھاپا آپہنچے اور اس کے کمزور بچے ہوں، پھر اسے ایک بگولا آپہنچے، جس میں ایک آگ ہو تو وہ بالکل جل جائے۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم سوچو۔ [266]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو، جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں، اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو، اس کے ننھے ننھے سے بچے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگوﻻ لگ جائے جس میں آگ بھی ہو، پس وه باغ جل جائے، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غوروفکر کرو [266]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور اس میں اس کے لئے ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور اسے بڑھاپا آپکڑے اور اس کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں۔ تو (ناگہاں) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل کر (راکھ کا ڈھیر ہو) جائے۔ اس طرح خدا تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو (اور سمجھو) [266]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 266،

کفر اور بڑھاپا ٭٭

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا اللہ زیادہ جاننے والا، آپ رضی اللہ عنہما نے ناراض ہو کر فرمایا تم جانتے ہو یا نہیں؟ اس کا صاف جواب دو، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا امیر المؤمنین میرے دِل میں ایک بات ہے آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بھتیجے کہو اور اپنے نفس کو اتنا حقیر نہ کرو، فرمایا ایک عمل کی مثال دی گئی ہے، پوچھا کون سا عمل؟ کہا ایک مالدار شخص جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام کرتا ہے پھر شیطان اسے بہکاتا ہے اور وہ گناہوں میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنے نیک اعمال کو کھو دیتا ہے، [صحیح بخاری:4538] ‏‏‏‏ پس یہ روایت اس آیت کی پوری تفسیر ہے اس میں بیان ہو رہا ہے کہ ایک شخص نے ابتداء اچھے عمل کئے پھر اس کے بعد اس کی حالت بدل گئی اور برائیوں میں پھنس گیا اور پہلے کی نیکیوں کا ذخیرہ برباد کر دیا، اور آخری وقت جبکہ نیکیوں کی بہت زیادہ ضرورت تھی یہ خیال ہاتھ رہ گیا، جس طرح ایک شخص ہے جس نے باغ لگایا پھل اتارتا ہو، لیکن جب بڑھاپے کے زمانہ کو پہنچا چھوٹے بچے بھی ہیں آپ کسی کام کاج کے قابل بھی نہیں رہا، اب مدارِ زندگی صرف وہ ایک باغ ہے اتفاقاً آندھی چلی پھر برائیوں پر اتر آیا اور خاتمہ اچھا نہ ہوا تو جب ان نیکیوں کے بدلے کا وقت آیا تو خالی ہاتھ رہ گیا۔ کافر شخص بھی جب اللہ کے ہاں جاتا ہے تو وہاں تو کچھ کرنے کی طاقت نہیں جس طرح اس بڈھے کو، اور جو کیا ہے وہ کفر کی آگ والی آندھی نے برباد کر دیا، اب پیچھے سے بھی کوئی اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا جس طرح اس بڈھے کی کم سن اولاد اسے کوئی کام نہیں دے سکتی۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:1074/4] ‏‏‏‏
928

مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا یہ بھی تھی «اَللَّھُمَ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَیَّ عِنْدَ کِبَرِ سِنِّی وَ انْقِطَاعِ عُمُرِی» اے اللہ اپنی روزی کو سب سے زیادہ مجھے اس وقت عنایت فرما جب میری عمر بڑی ہو جائے اور ختم ہونے کو آئے۔ [مستدرک حاکم:542/1:ضعیف] ‏‏‏‏

اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے یہ مثالیں بیان فرما دیں، تم بھی غور و فکر تدبر و تفکر کرو، سوچو سمجھو اور عبرت و نصیحت حاصل کرو جیسے فرمایا «وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ» [29-العنكبوت:43] ‏‏‏‏ ان مثالوں کو ہم نے لوگوں کیلئے بیان فرما دیا۔ انہیں علماء ہی خوب سمجھ سکتے ہیں۔
929



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.